میرے اندر بھی چھپا بیٹھا ایک سپاھی ہے
اس نے ہر جنگ میں کی میری راہنمائی ہے
اس حسن کی دلکشی پہ ایک غزل میں بھی لکھ دیتا
صد افسوس ! ختم ہوئی میرے قلم کی روشنائی ہے
فریب کھا کے بھی دل ان سے نالاں نہ ہوا
اس بے وفا کی سوچوں میں ایک یہی تو برائی ہے
چراغ جلا تو دیا ہے مگر روشنی سے ڈرتا ہے
اجالا ہوتے ہی جگنو کی موت آئی ہے
برا ہو وقت تو کتابیں سہارا دیتی ہیں
ان سے اچھا نہ کوئی شخص نہ تنہائی ہے
ان کو دیکھوں تو پھر دیکھا ہی کئیے جاتا ہوں
ایسا لگتا ہے بہت پرانی ان سے آشنائی ہے
بلال سے نہ ملو کی اس نے بے وفائی ہے
لوگ دیتے رہے اذان اس نے کی نغمہ سرائی ہے