تصور کا جزیرہ سا سجا رکھا ہے یادوں میں
حسیں اک شام کا لمحہ بنا رکھا ہے یادوں میں
اندھیروں نے مرے گھر کو ہی اپنا راستہ سمجھا
دیابھی یاد کا میں نے بجھا رکھا ہے یادوں میں
پرانا زخم سینے میں خوشی کیسے مری بنتا
ترے دردِ محبت کو اٹھا رکھا ہے یادوں میں
مجھے جیتے ہوئے اس نے تو زندہ مار ڈالا ہے
مگر اس کا یہاں نامِ وفا رکھا ہے یادوں میں
وہاں بھی مست آنکھوں میں مری دنیا کے پنچھی ہیں
یہاں بھی پیار کا موسم سجا رکھا ہے یادوں میں
مرے نایاب شعروں میں تمہارا ذکر ہے شامل
فنونِ عشق کا سجدہ سجا رکھا ہے یادوں میں
سفر میں چور ہو کر پھر چلی آنا مجھے ملنے
تمھارا راستہ وشمہ کھلا رکھا ہے یادوں میں