لمحوں سے کہیں دور بلاتی رہی مجھے
اک اجنبی کی یاد ستاتی رہی مجھے
انجان ظلمتوں سے اٹی اک ویراں گھڑی
چڑھتی ہوئی سحر سے ڈراتی رہی مجھے
تصویر جسکے سامنے اٹھتی نہ تھی نظر
الفت سے بازوؤں میں چھپاتی رہی مجھے
لیلائے خواب شوق سے روداد محبت
شب بھر بڑی لگن سے سناتی رہی مجھے
میں نے ندی سے پوچھا تیرے حسن کی بابت
وہ چاندنی کا عکس دکھاتی رہی مجھے
بکھرا ہوا تھا میں تیری راہوں کی دھول میں
خوشبو کلی کلی پہ سجاتی رہی مجھے
میں گوشہ ء گمنام میں بیٹھا تھا سہم کر
وہ آنکھ آئینوں سے چراتی رہی مجھے
سویا پڑا تھا میں حسیں یادوں کی گود میں
تتلی تمہارے شعر سناتی رہی مجھے