حقیقتوں کو اگر بے نقاب کر دیتے
ہم ایک پل میں اُنھیں لاجواب کر دیتے
نجانے کب کا یہ دِل ڈُوب ہی گیا ہوتا
یہ اشک دِل کو اگر زیرِ آب کر دیتے
اگر وہ ہم پہ ذرا اعتبار کر لیتے
تو اُن کی راہ کے کانٹے گلاب کر دیتے
وہ دیکھ لیتے نظر بھر کے ایک بار اگر
تو بے نیازِ عذاب و ثواب کر دیتے
خدا کا شکر ہے بے خواب ہوگیںٔ آ نکھیں
وگرنہ خواب تو جینا عذاب کر دیتے
وہ دیکھ لیتے کبھی جھانک کر اگر دِل میں
ہم اپنے دِل کو کھلی اِک کتاب کر دیتے