حُسنِ خوشبو کا ہے بیاں ہوں میں
ورطہ حیرت میں ہے جہاں ہوں میں
جس نے آداب مجھ سے سیکھے ہیں
لے رہا ہے وہ امتحاں ہوں میں
میرے اندر ہی پل رہا تھا کہیں
جس کو ڈھونڈا ہے مہرباں ہوں میں
شور سینے سے اٹھ رہا ہے مگر
ہے ہواؤں میں بادباں ہوں میں
کیا بہاروں میں روٹھ کر وہ گیا
سارے گلشن کی میں خزاں ہوں میں
اس کو چھونے کی آس دل میں رہی
کتنا اونچا ہے آسماں ہوں میں
آج تارے خفا ہیں قسمت کے
وشمہ آنکھوں میں ہے دھواں ہوں میں