غلاف پہن کے نکلی کتاب شیشے کا
حروف سنگ کے اور انتساب شیشے کا
وہاں تو برق تجلی کی رونمائی تھی
کہاں سے چومتا چہرہ گلاب شیشے کا
دیکھنا دھار سے اسکی نہ کٹ گرے دھڑکن
حیات موم کی گڑیا ،شباب شیشے کا
ندی کے کان میں کی ہے ہوا نے سرگوشی
کہاں سے لائی ہو یہ آفتاب شیشے کا
ذرا یہ حسن کی نازک مزاجیاں دیکھو
ہے نوک وقت پہ گویا حباب شیشے کا
کبھی یہ پوچھ کے فرقت میں جو گزرتی ہے
مجھے ضرور بتانا جواب شیشے کا
میں تجھے عکس کے سارے مزاج سمجھا دوں
وجود ہو تو کوئی بازیاب شیشے کا
اٹھے ہیں حسن کو چھونے بہار کے لنحے
کہیں سے دھونڈ کے لاؤ حجاب شیشے کا
دکھائے پھول کو کانٹا یا خار کو شبنم
نہیں ہے اتنا بھی جھوٹا حساب شیشے کا
جہاں جواب بھی کرچی ،سوال بھی کرچی
بتاؤ دیکھنا چاہو گی خواب شیشے کا