حیات کی سبھی ہو مرادیں پوری یہ بخت کی بات ہے
تقدس میں تاؤ نہ کوئی، ہر طرف تخت کی بات ہے
یوں از خود طبیعت کی اپنی ہی نٹ کھٹی رہی
مگر مزاج جو حقیر مت سمجھو یہ خصلت کی بات ہے
نہیں کہہ سکتے کہ حیات کے لمحے اور بھی ہونگے
ہم ملیں یا مل کر بچھڑیں یہ تو وقت کی بات ہے
پل بھر کی تسکین کو سبھی دیوانے بن گئے ہیں
کیا کریں ان دلوں کا؟ سب حسرت کی بات ہے
یہ ضروری نہیں کہ افلاس ہر جگہ بھٹکتا ہے مگر
کہیں کہیں مفلسی بھی ایک غفلت کی بات ہے
ہم جنم سے جہنم کی ہر سنگینی سے گذرے ہیں
مگر ہر ابتدا کہتی ہے اُس آخرت کی بات ہے