سنو
بڑا مان ہے نا تمہیں اپنے لہجے پر
اپنی گویائی پر
مگر کچھ دیر نہیں لگتی رسوائی پر
میری خاموشی کو میری کمزوری نہ سمجھ
خاموشی جب ٹوٹتی ہے تو طوفان اٹھتے ہیں
جس کی زد میں کوئی ایک نہیں آتا
دیے سب کے بجھتے ہیں
گھر سب کے اجڑتے ہیں
آشیاں سب کے گرتے ہیں
زرد پتوں نے تو گرنا ہی ہوتا ہے
مگر
بہت سے ہرے درخت بھی
طوفان کی بھینٹ چڑھتے ہیں
ذرا اب سوچ کہ کہنا جو بھی تم نے کہنا ہے
آواز خواہ ہوا کی ہو
خاموشی ٹوٹ جاتی ہے