خدا تو سن لیتا ہے ہر دعا میری
پتھر کےصنم نہیں سنتے صدا میری
میرے یار کا کوئی سندیس لاتی ہی نہیں
کیوں دشمن ہوئی جاتی ہے باد صبا میری
تیری عدالت میں کھڑا ہوں مجرم کی طرح
تو فیصلہ سنا کہ کیا ہے سزا میری
اس نے میری صداقت کو فریب جانا
جس نے جفا سمجھی ہے وفا میری
بڑا ضدی ہے وہ اسے مناؤں کیسے
غصے میں وہ سنتا ہی نہیں التجا میری
وہ اب مجھ سے خفا خفا سا رہتا ہے
مجھے سمجھاتا بھی نہیں ہے خطا میری
اب تو میرے نام کی مالا جپتا ہے
نہ جانے اسے بھا گئی ہے کون سی ادا میری