خوابوں کو تعبیر ملے
بس جذبہء تعمیر ملے
دوائے دل اکسیر ملے
دعاؤں کو تاثیر ملے
تیرے نام کی لکیر ملے
میرےہاتھوں پہ تحریر ملے
کیسے کوئی بچ پائے گا
جب زلف گرہ گیر ملے
میرے حسن کا قیدی
عشق کا اسیر ملے
تجدید الفت کر ڈالی
کوئی نئی تعزیر ملے
تنکے ڈھونڈنے والوں کو
آنکھوں میں شہتیر ملے
کاغذ کے پھولوں سے
عنبر ملے یا عبیر ملے؟
یاد گلے کا ہار بنے
جب درد کی زنجیر ملے
رعنا نے دل تھام لیا
جگر میں اتنے تیر ملے