خوابید پرندوں کے نشاں ڈھونڈ رہا ہوں
مدت سے میں اک حرفِ خزاں ڈھونڈ رہا ہوں
اب تُو ہے نہ بستی ہے نہ رستہ نہ مسافر
جلتے ہوئے خوابوں کا دُھواں ڈھونڈ رہا ہوں
کیا چیز ہے دل بھی کہ میں صحرا کے سفر میں
سر سبز درختوں کے نشاں ڈھونڈ رہا ہوں
اک عمر گزاری ہے تو قدموں کے نشاں سے
خوابوں کے شکستہ سے مکاں ڈھونڈ رہا ہوں
لفظوں سے کوئی عکس تراشا ہے تو پھر اب
لمحوں کی تجارت میں زیاں ڈھونڈ رہا ہوں
کچھ اور سفر میں مرے آگے سر ِخواہش
اے دوست تجھے اب میں کہاں ڈھونڈ رہا ہوں
اے عمر سیاہ بخت ذرا ٹھہرا کہ اب میں
گُم گشتہ حقیقت کے گماں ڈھونڈ رہا ہوں