میرا ماضی اکثر مجھ سے لپٹ کے رویا کرتا ہے
میرے پیروں کے چھالوں کو چوم کے رویا کرتا ہے
میرا سایہ بھی مجھ سے ضد نہیں کرتا
چھپ جاؤں اندھیرے میں مجھے ڈھونڈ کے رویا کرتا ہے
زندگی کئی انگینت سوال کرتی ہے مجھ سے
میں مسکراہ دوں وقت نظر جھکا کے رویا کرتا ہے
جو کبھی بھول سے آنکھ نم ہو جائے میری
آنسو بھی میری آنکھ سے بچھڑ کے رویا کرتا ہے
مچلتی ہوئی کئی حسرتوں کو جب سے میں نے دفن کیا
دور سے دیکھ کر مجھے ارماں رویا کرتا ہے
نیند بھی تو آتی نہیں کچھ ایسا حال ہے اپنا
خواب بھی نیند سے مل کے رویا کرتا ہے
میری زندگی کا حاصل بس اتنا ہی رہا
قصہ اے محبت دو لفظوں میں سمٹ کے رویا کرتا ہے