کچھ گنہ نہیں اس میں اعتراف عادت میں
جو چھپائے پھرتے ہو سب کو ہی فطرت میں
بوجھ کیوں رہے دل پر اپنی کم کلامی کا
بزدلی بھی اچھی ہے چاہئے اسی حالت میں
شب جو خواب دیکھا تھا ایک دشت خواہش کا
اپنا جی کڑا کر کے آج اسکی حیرت میں
خوب ہے سزا یہ بھی کسب کامیابی کی
ایک شب کی قیمت میں کیا سماعت میں
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
تھا تو وہ بس اک لمحہ با وفا مروت میں
خواب لے کے آیا ہوں میں دکان دشمن پر
اس سے بیش قیمت ہے آپ کی رفاقت میں
شاعری بھی لاحاصل اور قلم بھی بد قسمت
خواب ہے نہ بیداری ہوش نہ قسمت میں
اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں وشمہ
بے دلوں کی ہستی کیا جیتے ہیں اذیت میں