آپ تعبیر سے ڈرجائیں گے۔۔۔۔۔۔ رفتہ رفتہ
خواب یہ سارے بکھر جائیں گے۔۔۔ رفتہ رفتہ
بھر کے جاتے ہیں گلِ تر سے جو تیرا ۔۔دامن
آگ سینے میں بھی بھرجائیں گے۔۔ رفتہ رفتہ
ابھی آغازِ محبّت ہے ذرا صبر ۔۔۔۔۔۔۔کرو
تہمتیں اور بھی دھر جائیں گے۔۔۔ رفتہ رفتہ
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے مجھ کو۔۔۔ ہر وقت
آپ وعدے سے مکر جائیں گے۔۔ رفتہ رفتہ
ہم سے بھی چاہئے ملناتمہیں ۔۔۔گاہے گاہے
ورنہ ہم جاں سےگذر جائیں گے۔۔ رفتہ رفتہ
اسی اُمیّد پہ جاری ہے محبّت کا۔۔۔۔۔۔ سفر
ہم تیرے دل میں اُتر جائیں گے ۔رفتہ رفتہ
ہے جنہیں دید کی اُمیّد تیرے ۔۔جلؤوں کی
لے کے وہ دیدہءِ تر جائیں گے۔۔۔۔ رفتہ رفتہ
شاعری شیشہ گری ہے تو پھر اے ۔جانِ وفا
آپ شیشے میں اُتر جائیں گے۔۔۔۔ رفتہ رفتہ
ہے تویہ مشقِ سخن جی کا زیاں ہی ۔۔۔لیکن
زخم کچھ اور نکھر جائیں گے۔۔۔۔ رفتہ رفتہ
تیرے عارض پہ مچلتے ہؤے شعلوں کی قسم
ہم سُلگتےہؤے مر جائیں گے۔۔۔ رفتہ رفتہ
ہم تو ہو جائیں گے رسوا یہاں۔۔چپکے چپکے
مگر مشہور تمہیں کر جائیں گے ۔ رفتہ رفتہ
قافلہ عشق کا چلتا ہی رہے گا۔۔۔۔۔ یونہی
دوسرے سارے ٹھہر جائیں گے رفتہ رفتہ
زخم دل کے تو کبھی ٹھیک نہ ہوں گے شائد
جسم کے گھاؤ توبھر جائیں گے۔۔رفتہ رفتہ
بال و پر پہ نہیں جذبوں پہ بھروسہ ۔کرنا
بال و پر تیرے بکھر جائیں گے۔ رفتہ رفتہ
ہم تو کچھ اور بکھر جائیں گے جاتے جاتے
اور وہ اور سنور جائیں گے۔۔۔ رفتہ رفتہ
آج یہ سوچ کے بیٹھا ہے سرِ راہ۔۔ وسیم
آپ آئیں گےتو گھر جائیں گے۔ رفتہ رفتہ