خواہشوں کی تکمیل تک ہر چیز بے قدر ہو جاتی ہے
بے فہمائش سے بھی کوئی گھڑی مقدر ہو جاتی ہے
کوشش ہے کہ زندگی کی کشتی کو تیراکے آگے چلیں
ہوتی ہے طوفاں کی مذمت تو یہ دربدر ہو جاتی ہے
جہاں پارسائی جائز ہو، وہاں ہم روا کیا کریں
یونہی پھر بت تراشی ہماری ہمسفر ہو جاتی ہے
حُسن پوشیدہ اگر تو دلفریبی نزاکت کا کیا کہیں
مگر یہ سامنے رہنے پر آنکھ کنکر ہو جاتی ہے
کبھی ادراک کی موصولی شہرت پرست نہیں ہوتی
یہ جائے حَس دیوانگی کوئی عضر ہو جاتی ہے
اب نازک خیالی میں آندہیوں سے غافل ہیں سنتوشؔ
درد انگیز چٹانوں میں ہر سوچ اگر مگر ہو جاتی ہے