میری بے تاب سی خواہش
تو ہواک نور مجسم میری ذات کی تاریکی کا
میں تیری بانہوں میں سمٹی رہوں سدا
میری زلفوں کی اسیر ی
یو ں بے چین کر جائے تجھے
جیسے نرم پھولوں کی پتیوں پہ
شبنم سدا بے چین رہتی ہے
اک ایسی بے چین خواہش کی طرح
میں تیرے سینے سے لپٹی رہوں سدا
تجھ سے تیر ا ہر خواب پورا کرنے کی طالب ہوتی
تیر ا مجھ میں ٹھہرنا یوں ہوتا
کہ جیسے سیماب ہو دست دعا کا پیکر
تیری آغوش میں میں بکھرتی رہتی کہیں دور تلک
میری سانسوں کی تھرتھراہٹ
تیر ی دھڑکن میں ٹھہر جاتی
جیسے خوشبو ہو تحلیل ہوا میں
تو جب میری زلفوں کی اسیری کو رہائی دیتا
میرے بالو ں میں تیری انگلیاں اپنا اثر چھوڑتیں یوں
کہ جیسے گرداب سے مچل کے نکلتا ہو ا
قیامت خیز طوفان
میں تیرے اس نقش پا میں
ہر روشنی پا لوں زندگی کی
اپنا آپ یوں وقف کردوں تیرے واسطے
جیسے نم آنکھوں سے شام غم ڈھل جاتی ہے
صبح بہاراں لا کر
میری بے تاب سی خواہش
فقط اتنی سی
سمٹ جائیں دوسرے کی آغوش میں
کہ۔۔ تو مجھ سے جدا نہ لگتا، میں تجھ سے جدانہ لگتی
نہ میرا ہو نام الگ تجھ سے،
نہ تیرا نام ہو مجھ سے الگ
اس خواہش کی تکمیل میں ہی جی جاؤ ں میں
وہ لمحے ٹھہر جائیں یو ں سدا کے لیے ایسے
آب گہر چھپ جائیں آنکھوں میں جیسے
تو بس نور مجسم کا پیکر ٹھہر جائے
میری حیات بس تیرے واسطے گزر جائے