زندگی کے میلے مِیں خواہشوں کے ریلے مِیں
تُم سے کیا کہیں جاناں اِسقدر جھمیلے مِیں
وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے سخت لامکانی ہے
ہجر کے سمندر میں تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
تُم کو جو سُنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی مِیں ہوتی ہیں
درد کے سمندر مِیں انگِنت جزیرے ہیں بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے درئیچے پر تُم نے جو سجایا تھا
بات اُس دِیئے کی ہی ' بات اُس گِلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کر آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹُوٹ ٹُوٹ جاتا ہںے
زندگی سے لمبی ہے بات رَتجگے کی ہے
راستے مِیں کیسے ہو بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں مِیں گُفتگو اِضافی ہے
پیار کرنے والوں کو اِک نِگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سُن جاؤ ایک دِن اکیلے مِیں
تُم سے کیا کہیں جاناں اِسقدر جھمیلے مِیں