غم سے جو آشنا نہیں ہوتا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
آپ ہم گام جب نہیں ہوتا
راستا ، راستا نہیں ہوتا
ہرکماں تیرزن نہیں ہوتی
ہر نشانہ خطا نہیں ہوتا
آدمی سے نمود ہوتی ہے
خود خدا بھی خدا نہیں ہوتا
یوں تو ہر شے بچھڑ کے رہتی ہے
اِک ترا غم جُدا نہیں ہوتا
بات کا اِذن مِل تو جاتا ہے
بات کا حوصلہ نہیں ہوتا
حسن والوں کی آنکھ میں مفتی ؔ
احترام ِ وفانہیں ہوتا