روتے روتے ہنس لیتا ہوں کہ منظر گنجان لگتا ہے
میں خود سے ہی لڑ پڑتا ہوں کہ رویہ انجان لگتا ہے
شجر سے بچھڑ کہ تو پتہ بھی فریاد کرتا ہے
مجھے لوٹا دو میرا جیون کہ جنگل ویران لگتا ہے
نہ ارادا بدلا اور نہ ہی دیوانے تیری قسمت
اب تو بدل دے راستہ کہ سفر نادان لگتا ہے
سوچ کے رکھنا اب کے قدم زمانے میں
کہ دور انقلاب میں جینا ایک ارمان لگتا ہے
آج پھر جل اٹھے ہیں میری وحشتوں کے چراغ
بھلا نہیں طوفاں سے گزرنا کہ سفر عنوان لگتا ہے
میں مجرم تو نہیں جو کرب میں زندہ ہوں
خود کو سنبھال ساگر کہ زانہ حیران لگتا ہے