خود وہ ادھر ہے عکس ادھر میں کیا کروں
آباد اک جہانِ دگر میں کیا کروں
بہتر یہی ہے دیکھئے آئینہ صبح و شام
گر معتبر ہے کوئی خبر میں کیا کروں
کیا کیجئے گا دیکھ کے آئینہ روز روز
سچ بولنے کا خاص ہنر میں کیا کروں
برسوں سے قید ہوں میں اسی کے حصار میں
اک شکل ہے کہ شام و سحر میں کیا کروں
اک دن یہ راز مجھ پہ اچانک ہی کھل گیا
مجھ جیسا ایک بشر میں کیا کروں
وہیم و گماں ہے یا ہے حقیقت کسے خبر
وہ ہے کہ میں ہوں کون ادھر میں کیا کروں
وشمہ رکھا ہے جب سے مقابل اک آئینہ
ٹھہرا ہوا ہے وقت سفر میں کیا کروں