درد ہاتھوں کی ہتھیلی پہ جو تحریر کیا
گردشِ زیست کو پھر اپنی ہی تصویر کیا
ہائے اے عشق تری راہ میں دیکھو اکثر
حسرت دید سے ہر خواب کو تعبیر کیا
چڑھتے سورج کی شعاؤں کو اتارا اخود میں
منظر صبھ کو پھر آنکھ کی تنویر کیا
کیسے نکلو مری ضان حسارِ دل سے
تیری یادوں کو اگر پاؤں کی زنجیر کیا
ہو بھی سکتے ہئں یہ مسمار وفا کے جزبے
قصرِ الفت کو افر دل میں نہ تعمیر کیا
میں نے خود کی نگاہوں سے بچا کر وشمہ
خود کو لیلی ، کبھی شیریں ، کبھی ہیر کیا