خود کو مناؤں کبھی خود سے روٹھوں
دل بہلانے کے عجب بہانے ڈھونڈوں
قید ہوئی ایسی اس صورت کے سحر میں
میں کہیں جانا بھی چاہوں تو جا نہ پاؤں
وہ ارادہ تو کرے مجھ سے ملاقات کا
اس کی آمد پر دھڑکن دل سیج بناؤں
اپنی جاں کے بہت قریب رکھوں اسے
اس کی خوشبو کو مٹھیوں میں سمیٹوں
میں گل حوالے کر کے تمام اپنی حیات کے
بدلے میں اس کے دامن کے خار سمیٹ لاؤں
وہ ہو جائے میرا گر نہ بھی ہو تو بھی
اپنی دعاؤں کے سائبان راہ میں بچھاؤں