کیسے گونجی ہے مرے دل کی صدا چاہتا ہے
: میں نے مانگی تھی عجب رب سے دعا چاہتا ہے
میرے محبوب کبھی آؤ ذرا رات ڈھلے
کیسے جلتا ہے مرے دل کا دیا چاہتا ہے
خون آنکھوں سے جو بہتا ہے وہ ہے دل کا مرے
کتنی ہجرت کی ہے دل سوز سزا چاہتا ہے
گل کے موسم کی ہواؤں سے گذارش ہے مری
میری حالت نہ بکھرجائے ذرا چاہتا ہے
صبح کی آنکھ سے نکلا ہے سمندر کیسے
میرے احساس پہ برسی جو گھٹا چاہتا ہے
اپنی ہستی کے سبھی نقش مٹا دوں ،چاہوں
جسکو آنا تھا ابھی تک وہ وفا چاہتا ہے
اپنے اعمال خیالوں کے فلک پر رکھ کر
اپنا ایمان خدا سے یہ دعا چاہتا ہے
جان دیتے تھے سدا ہم تو وفا کی خاطر
وشمہ اس بار جو کی اس نے جفا چاہتا ہے