خَلقتِ شہر عجب خواب میں کھوئی ہُوئی ہے
جاگتے میں بھی یہ لگتا ہے کہ سوئی ہُوئی ہے
اب جو یہ خار بدن چَھید رہا ہے میرا
فصل یہ بھی مِرے اَجداد کی بوئی ہُوئی ہے
مَیں تِری یاد سے غافِل رہُوں ' کب ممکِن ہے
اک سُوئی تُو نے مِرے دل میں چُبھوئی ہُوئی ہے
یہ تِری چشم سلامت رہے ' اَے میرے غزال
تار ِ اَبرُو میں مِری جان پِروئی ہُوئی ہے
لب تِرا دیکھ ' مجھے مِیرؔ کی یاد آتی ہے
پَنکھڑی جیسے مَے ء ناب سے دھوئی ہُوئی ہے