ریشم زلفوں کا یہ کیسا جال بنایا تُم نے
نظروں سے تیر چلایا بے حال بنایا تُم نے
لبوں پے میری جان آ گئی ہے اور
لوگ تجھے کہتے ہیں دیوانہ کمال بنایا تُم نے
تیرے رُخسار پے سیاہ تِل کا ہونا اتفاق نہیں
سنا ہے اپنے حُسن کا پہریدار بنایا تُم نے
ہونٹ تیرے شگفتہ گلاب ہو جیسے
سرور اتنا کہ شراب ہو جیسے
نہ نہال نے کوئی اتنا حسین دیکھا
تُو کو مل پری لا جُواب ہو جیسے
نظریں تیری جانب اور قلم چلتی گئی
خُدا جانے کیسے شاعر نہا ل بنایا تُم نے