خیال پر آشوُب رہیں وہ عمدگی آویزاں نہیں ہوئی
دل کے قرار نے کہدیا سرکشی آویزاں نہیں ہوئی
بہاروں میں بھی سبھی پتے سُرخ ہوکر گر گئے
اچھا ہوا پت جھڑ پہ خفگی آویزاں نہیں ہوئی
نظاروں کو میں نے نشیب و فراز کی نظر سے دیکھا
دھندلے تھے عکس سارے زندگی آویزاں نہیں ہوئی
قرض کی ادائگی میں عرق بھی پی گئے مشتاق
کہتے ہیں فریبی کہ، دیوانگی آویزاں نہیں ہوئی
صداؤں کے دہراؤ پہ اکثر فضول ہے گرجنا
ابھی تو انصاف کی تروتازگی آویزاں نہیں ہوئی
مقدس چوکھٹوں سے کبھی دعائے توبہ نہ ملی
تبھی تو میری فرض بندگی آویزاں نہیں ہوئی