داغِ جگر تو ہم سے چھُپایا نہ جائے گا
Poet: Asghar Azimabadi By: Syed Asghar Hussain, Patnaساقی کی عنایات بھُلایا نہ جائے گا
ہر رِند معہ کدے میں بُلایا نہ جائے گا
داغِ جگر تو ہم سے چھُپایا نہ جائے گا
اب اور کو ی ٔ دل میں بسایا نہ جائے گا
ہر ایک کو دردِ دل تو سُنایا نہ جائے گا
پھر ہم سے اپنا حال دیکھایا نہ جائے گا
یہ عشق تو دلوں میں بہاروں کی فصل ہے
ہر باغ میں یہ پھول کھِلایا نہ جائے گا
ساقی کا معہ کدے کا ،سبو کاہو جام کا
اب اور کو یٔ رشتہ نبھایا نہ جائے گا
ان مست نگاہوں کے تصدّوق میں دکھیے
نظروں سے پھر یہ جام پلایا نہ جائے گا
بگڑا ہوا اصول بنایا نہ جائے گا
اب کویٔ معہ کدے سے بھگایا نہ جائے گا
یہ عشق تو بھنور میں پھنسی ایک ناو ٔ ہے
ہر ایک تو کنارے پہ لایا نہ جائے گا
روشن ہے چشمِ نور میں معشوق اسطرح
طوفاں سے بھی چراغ بُجھایا نہ جائے گا
ہے عمرِ روأ کوچۂ معشوق میں گزری
اُن سے تو نقشِ پا بھی مِٹایا نہ جائے گا
میری وفاے ٔ ہار گیٔ بے وفا کے ہاتھ
اب اور نازِ حُسن اُٹھایا نہ جائے گا
غیرت تو بھو ل بیٹھے تھے ہم عشق میں مگر
جاگے ہوے کو اور جگایا نہ جائے گا
گردش نے میری مجھکو سیایا ہے اسقدر
اُن سے چاہ کے بھی ستایا نہ جائے گا
پیبند ِ کفن منطزرِ قبر گاہ ہوں
پھر ہم سے اپنا حال دیکھایا نہ جائے گا
اجداد سے ملی ہے عباے ٔ سخنوری
اصغرؔ کو امتہان میں لایا نا جائے گا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






