دراصل وار کیا بھی تھا رقیب نے پیٹھ پر
درد جذب ہوا مسکرانے کی ترکیب سیکھ کر
ہمدردی قائم رکھنا تو ان کی نمائش تھی
مجھے عجب ہوا سب کچھ عجیب دیکھ کر
ہاتھ کی لکیروں میں ہیں سب ملال تدبیریں
میں نے ارواح اٹھالیا خود کا نصیب دیکھ کر
دل کے زخم گہرے تھے مگر شور و غل نہ تھا
یہ شگاف جسے دکھائے بھی تو طبیب دیکھ کر
وہ صحرا نورد بدّو آج بھی لامکان ہیں کتنے
وقت کو کہاں رحم آیا کسے غریب دیکھ کر
یہ حُسن خیال و باطل تک ہوتا تو سہی
میں نے پانا پسند کیا اُسے قریب دیکھ کر