درد مسکرانے کی کلا میں چبھہ رہہ گیا
زخم چاک ہوکے بھی ایک دھبہ رہہ گیا
کیا خبر تھی کہ کشش کرہت ہی بنے گی
اپنی امید پہ میں یوں بے وجہ رہہ گیا
وہ روز پوچھ بیٹھے کہ کتنا چاہتے ہو
میری چاہتوں میں تھوڑا شبہ رہہ گیا
اعتبار ٹوٹتے گئے اختیار تو تھا بھی نہیں
حیات پر ہر حیلا ایسے دبہ رہہ گیا
اپنی تنہائیوں کے قافلے دھکیل چکے تھے
دل نے پھر کروٹ لی کہ دلربہ رہہ گیا
ویسی نہیں دنیا جیسے ہم سوچتے ہیں اکثر
جس کی جہاں دل لگی وہ اس جگہ رہہ گیا