اپنا وجود ذات محل نظر گیا
آنکھوں سے میری ، نقشہء دیوار ودر گیا
مہر ووفا کا وہ رخ زیبا جدھر گیا
اس شہر بے پناہ کا منظر ادھر گیا
اس رہ سے ہم بھی گزرے ہیں بس اتنا یاد ہے
اب کیا خبر کہ شہر کا نقشہ کدھر گیا
درس حیات نو کا وہ عنواں ہے دوستو
جو حادثوں کی دھوپ میں تپ کر نکھر گیا
اے شاعران عصر نوی کچھ جواب دو
اردو سے میر وحالی کا لھجہ کدھر گیا
کیسے بھلایا جائیگا اس بار اے شمیم
کل شام ان کے ساتھ جو لمحہ گزر گیا