وعدہ کر کے جانے والے
دسمبر پھر سے آ گیا ہے
تیرے آنے کی اب تک
دل کو میرے اُمید نہیں ہے
چاہے آگ لگے دسمبر کو پھر
جس میں تیری دید نہیں ہے
بیٹھی ہےدل میں آگ لگاےٗ
خواہش اِک شام بتانے کی
گلاب سے خوشبو چرانے کی
جو آنکھیں تمھاری کہتی ہیں
وہ کہانی پھر دہرانے کی
کچھ شعر جو تم پہ لکھے ہیں
سامنے تیرے سنانے کی
جو پاوٗ کسی شام اسے تم
دینا میرا پیغام اُسے تم
تیرے وعدہ پہ جینے والا
مرنے پھر سے اگیا ہے
وعدہ کر جانے والے
دسمبر پھر سے آگیا ہے