دسمبر کی پہلی رات کیسے بیتائی میں ہی جانو
کیا حال ہوا جب یاد آئی میں ہی جانو
باہر سرد ہواؤں کے پہرے لگ گئے اور
اندر ہجر نے کیا آگ لگائی میں ہی جانو
بھولنے لگے تھے مشکل سے گزرے لمحے تمام
دسمبر نے پھر وہی بات اُٹھائی میں ہی جانو
محفل میں یاد آئے جو تم تو رونے لگے
کس طرح سے چشمِ نم چھپائی میں ہی جانو
دسمبر کا تو آغاز ہے میرے دلِ نادان
31دن رہے گی یہی سچائی میں ہی جانو
پلکوں کے آنچل پے اب اشک بھی جمنے لگے
یادوں کے ساتھ کُہرِ فضاہ چھائی میں ہی جانو
پھر سے عدالتِ عشق میں کھڑا کیا گیا
ہجرِ قید کی سزا گئی بڑھائی میں ہی جانو
دسمبر کی پہلی رات نے پاس بیٹھ کے میرے
نہال سے جو داستانِ ماضی لکھوائی میں ہی جانو