ابھی پھر سے پھوٹے گی یادوں کی کونپل ابھی رگ سے جاں ہے نکلنے کا موسم ابھی خوشبو تیری مرے من میں ہمدم صبح شام تازہ توانا رہے گی ابھی سرد جھونکوں کی لہریں چلی ہیں کہ یہ ہے کئی غم پنپنے کا موسم سسکنے سُلگنے تڑپنے کا موسم دسمبر دسمبر دسمبر دسمبر