دشت ِ اُلفت میں وفاؤں کے سراب دیکھے
Poet: Ibn.e.raza By: Ibn.e.Raza, islmabadحادثے لاکھ سہے، دُکھ بے حساب دیکھے
دشت ِ اُلفت میں وفاؤں کے سراب دیکھے
کس طرح توڑا ہے مجھے شوق ِ جنوں نے
آ کر وہ کبھی میرے دل کی کتاب دیکھے
کس قدر پستی بھری ہے یہاں سوچوں میں
صبح ِنور میں بے نور ماہ و شہاب دیکھے
یہی سوچ کر زخموں کر ہرا رکھا ہے آج تک
وہ اپنے ظلم دیکھے، میرے اعصاب دیکھے
وہ لوگ جو محبت کا دم بھرتے تھے ہر لہذہ
جب بات وفاؤں کی چلی، لاجواب دیکھے
اُسے فرصت ملے اگر نور کے ہالوں سے
اُتر کر نیچے کبھی تیَرگی کے عذاب دیکھے
آزمائشوں سے کیا گلہ، دکھ تو یہ ہے کہ
تا عمر نا کردہ گناہوں کے ثواب دیکھے
یہ ابر ِساون تو کچھ بھی نہیں ہے وہ میری
بھیگی ہوئی آنکھوںسےرواں سیلاب دیکھے
ساحل پہ کھڑا ہو کر لہروں کو للکارنےوالا
اب کہ سمندر میں اُتر کر لطف ِگرداب دیکھے
جِن کا فکروسخن سے کوئی تعلق ہی نہیں
بزم ِسُخن میں ایسے کئی اصحاب دیکھے
میں رستوں کی سازش سمجھتاتوملتی منزل
زندگی میں ہر موڑ پہ نئے نئے باب دیکھے
خوں کی طرح میری نبض میں رواں ہے جو
اتُر کر دل میں،جذبوں کی آب و تاب دیکھے
حرف ِوفا کا تذکرہ بھی نہیں پایا ہے کہیں
اس عمر ِرواں میں جتنے بھی نصاب دیکھے
میں تو اُسی میں گم ہو کر، خودی بھول چُکا
اُس کو گلہ ہے اگر، تو میرے اِنتساب دیکھے
دل تو اُسکا بھی رضا لرز جائے اک بار اگر
سر ِمحفل میری آنکھوں کو پرُ آب دیکھے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






