دشمنی ہی کیوں محبت کیوں نہ ہو
تعلق اچھے کرو کہتا ہے پیدا عداوت کیوں نہ ہو
مجھے چھوڑ وہ غیر سے مل لیا گلے
پھر دیکھنے بعد شکایت کیوں نہ ہو
کرنی تھی بات کرتا مجھ سے نہ غیر سے گلا
دو دلوں کے درمیاں پھر مخالفت کیوں نہ ہو
ہوتی ہے یاد رہے دوا ہر درد کی
نہ ہو حسن کا کوئی علاج تو الفت کیوں نہ ہو
جس واسطے چھوڑا سارا زمانہ ہم نے
اٹھے نہ سر در اسی عبادت کیوں نہ ہو
معصوم تھے نہ تمیز دشمن دوست کی
معلوم ہوا فرق تو دوست سے وحشت کیوں نہ ہو
نہ آئے لب پر کوئی شکوہ شکایت گلہ
رہے خاموش اسی پھر محبت کیوں نہ ہو
ہونٹوں پے تشنگی بالوں پے گرد رنگ زرد سا
ان عاشقوں کو دیکھ کر عبرت کیوں نہ ہو
ہم تو قلزم اس کے پہلو سے اٹھ کے نہ جائیں گے کہیں
چاہے سر پے برپا قیامت کیوں نہ ہو