کس طرح درد کو قرار آئے
دشمن جاں تجھی پہ پیار آئے
میرے غم کا خراج لے جانا
جب کبھی لوٹ کر بہار آئے
زندگی ہم ترے بہانے سے
موت کے قرض بھی اتار آئے
سامنا تیرا اور دعا لب پر
کاش یہ حشر بار بار آئے
پھر رہے ہیں ابھی مداروں میں
کون جانے کہاں قرار آئے
اے زمانے بموجب وحشت
چل ترا حسن تو نکھار آئے
آئے تیمار دار سارے حزیں
آپ پھولوں کا لے کے ہار آئے
یاد کے اشک ہیں اے ہم نفسو
کیسے کرنا انہیں شمار آئے
آپکا اذن سر چشم نواز
پوچھئے دل کہاں پہ ہار آئے