جو عدو میری جان کے نکلے
میرے ہی خان دان کے نکلے
وہ تو بن ہی گئے تھے اپنے وکیل
ہم ہی کچّے زبان کے نکلے
پھر رہے ہیں وہ ہوکے خانہ بدوش
وہ جو مالک مکان کے نکلے
وہ بھی وہم و گمان کے نکلے
ہم بھی وہم و گمان کے نکلے
ان کے جانے سے مجھ کو خطرہ ہے
وہ جبھی یاں سے جان کے نکلے
اس کے بدلے تھے دیر سے تیور
پر اچانک زمان کے نکلے
کر گئے ہیں نشانہ اپنا خطا
تیر دل کی کمان کے نکلے
دل کی باتیں نقیؔ کی سن بھی لیں
وہ بہت تیز کان کے نکلے