کسی دلبر کا پیار تو ہمیں مار گیا
اب آنکھوں سے محبت کا خمار گیا
اس کے نقش پا کے نشاں دیکھتے ہیں
جہاں سے گزر کر وہ دلدار گیا
بن سنور کر پرستش حال کو جو آئے
انہیں دیکھتے ہی بیمار کا بخار گیا
مریض محبت کو ہچکیاں آرہی تھیں بار بار
بچھڑے یار کا دیدار اسے مار گیا
وعدہ کر کے بھی جو ملنے نہ آیا
تمام عمر کے لیے اس سے اٹھ اعتبار گیا