دل بیچتا ہوں جگر بیچتا ہوں
دیکھو میں اپنا سر بیچتا ہوں
بچتا پھر کیا ، نصیب میں اپنے
ثمر بیچتا ہوں شجر بیچتا ہوں
کمایا تھا جو، جوانی میں ساری
وہی اب شام و سحر بیچتا ہوں
خریدے گا کون ، اب کے اسے
خون میں ڈوبا ، شہر بیچتا ہوں
خالی ہوا ہے ، میکدہ جب سے
شراب سے دھلی، نظر بیچتا ہوں
بچا نہیں کچھ ، پاس ہے میرے
فقط میں چشم تر بیچتا ہوں
ملتا نہیں قدر داں ، کوئی طاہر
ادھر بیچتا کبھی ادھر بیچتا ہوں