دل تمنائی ہے کہ وہ مجھے اپنا رکھے
جہاں رکھے جس حال میں جیسا رکھے
اُترے گی میرے آنگن میں خوشبو اُسکی
شرط یہ ہے وہ کوئی تو در کُھلا رکھے
وہ کیا ظُلمت مٹائیں گے خود کو جلا کر
جن چراغوں سےعداوت باد ِ صبا رکھے
وہ بھلے میرے قریب نہ رہتا ہو مگر
ہونٹوں پہ سدا یونہی حرف ِ دُعا رکھے
پھولوں سے عبارت تھی زندگی، اُسنے
کانٹے ہیں میری راہوں میں بچھا رکھے
ہم بھی یہی سوچ کر خوش رہ لیں گے
وہ تبسم کویونہی چہرے پہ سجا رکھے
جو پل بھر میں پرایا کر دیتا ہو رضا
ایسے شحص سے کوئی کیا واسطہ رکھے