دل دیوانگی میں جاں سے گزرنا چاہے
خوشبو کی طرح ہوا میں بکھرنا چاہے
شمع اشکبار نہیں دیکھی جاتی اُس سے
پروانہ اُس کے غم میں جل مرنا چاہے
اب اُس شخص سے کیا عہدِ وفا باندھوں
جو سر ِ دست محبت سے مکرنا چاہے
جس کو دور سے ہی تکتے تھے کبھی
وہ چاند میرے آنگن میں اُترنا چاہے
اُس کے آنے کا سوچ کر فرط ِ شوق سے
دُلہن کی طرح دل میرا سنورنا چاہے
دل حراساں ہے کہیں اسکو بُرا نہ لگے
احساس ہے کہ چہرے پہ اُبھرنا چاہے
تم کیسے رضا بات کہو گے دِل کی اُسکو
جس نے سننی ہے وہی اگر نا چاہے