دل سے رشتوں کو نبھایا جائے
پیار میں انتہا تک جایا جائے
پیار نازک ھے کانچ کے جیسا
سنگ دلوں سے اسے بچایا جائے
وہ جو عیب ھے یار میں اپنے
بہتر ھے سب سے چھپایا جائے
دل ھے ایک انمول خزانہ صاحب
ہر کسی پر نہ اسے لٹایا جائے
کوئی تلقین صبر ہو خود کو
ہر بات پر نہ یوں ہی آیا جائے
اس کو اعتبار نہیں ھے شاید
چلو دل چیر کر اسے دکھایا جائے
عشق کے ماٹھے جو کلنک ھے لگا
اپنی آبرو سے اسے بچایا جائے
موت آنی ھے اسد آئے گی
پھر کس بات سے گھبرایا جائے؟