دل لگی، مے کشی، عاشقی،اب نہیں
پہلے تھی جو کبھی زندگی اب نہیں
تھے کبھی راستے خوشبوؤں سے بھرے
سنگِ مر مر سے راہیں سجی اب نہیں
شہرِ خوُباں کی وہ دلکشی اب نہیں
وصل کی چاہ میں وہ خوشی اب نہیں
جس کو دیکھے بِنا رات ڈھلتی نہ تھی
اُس کی آنکھوں میں وہ روشنی اب نہیں
اُس کے ہاتھوں کی ریکھائیں کیسے پڑھیں
میرے پہلو میں وہ بیٹھتی اب نہیں
بَن کے مہماں صبا ٹھہرتی اب نہیں
میرے آنگن میں وہ چاندنی اب نہیں
جس کو دیکھے بِنا پھول کھِلتے نہ تھے
اُس کے چہرے پہ وہ تازگی اب نہیں
اب کے مل جاۓ شاید نشانِ وصل
نا خداؤں سے جو دوستی اب نہیں
نوجوانی کا قاسم عجب دور تھا
ہاں مگر زندگی، زندگی اب نہیں