جزبوں کا حشر خواب میں ایسے اٹھائیے
بندے کو اسکے ظرف سے بڑھ کر پلائیے
تھیں جس کی دسترس میں فقط بے یقینیاں
وہ آرزو خطا تھی اسے بھول جائیے
تم کو تلاش ہے ناں رموز حیات کی
میں تم کو بتاتا ہوں ذرا پاس آئیے
پاؤ گے اپنے گرد ستاروں کا جھمگٹا
پلکوں پہ کسی آس کے سپنے سجائیے
مدت ہوئی ہے آئینے سے دوستی نہیں
اس حسرت ناکام کو پھر سے جگائیے
کل کو نہ کہیں خار ہی رہ جاے ہاتھ میں
اتنے نہ بے دریغ شگوفے کھلائیے
میں نے تو آئینے میں فقط آپکو دیکھا
پرتو سے اپنے آپ بھی نظریں ملائیے
ہو جائے زندگی سے کہیں پیار نہ ہم کو
اتنا نہ ہمیں موت سے للله ڈرائیے
ہیں اور بھی دنیا میں فراغت مزاج لوگ
میرے ہی ہاتھ میں مقدر تھمائیے
ہم پہ بھی چلو وا ہو فسانہ حیات کا
چہرے پہ ذرا شام سی زلفیں گرائیے
پنہاں ہے تیری پرق تجلی میں زندگی
دل محو انتظار ہے پردہ اٹھائیے