دل مضطرب پہلے کی طرح نہ رہا
اک آئینہ تھا شیشے کی طرح نہ رہا
ہوتے رہے جس پر زمانے کے ظلم و ستم
وہ گھر تھا مگر رہنے کے قابل نہ رہا
چودہویں رات کو اسے چاند کے پاس دیکھا
صبح کا تارا نہ جانے کیوں مجھے رولاتا رہا
سب چلے گئے پی کر مہ خانے سے
میں تنہا جام پہ جام لٹاتا رہا
اسے پانے کی آس میں کٹی عمر ساری
ملا وہ تو نور نظر جاتا رہا