دل و دماغ اور قلم نے آج
تیرے ذکر کی ٹھان رکھی ہے
سراپا احتجاج ہیں ، کہتے ہیں
خدا نے ہم میں بھی زبان رکھی ہے
کہنے لگا دماغ ، اس کی یادیں
رکھی ہیں ایسے ، جیسے جان رکھی ہے
دل بولا ، وصال یار کی طلب
تڑپ ، آرزو ، جستجو ہر آن رکھی ہے
بولا قلم، اٹھا ہوں جب بھی اسکے لیے
رخؔ گواہ ہے، صرف شان لکھی ہے