کیا کیا نا کیے ستم ہم پر
اور دل ُان سے خفاء اب بھی نہیں
کتنے بجھ گئے چراغ جلتے جلتے
اور انتظار ہوا ختم اب بھی نہیں
رات کو ُاڑوھ کر سو رہی تھی چاندی
اور تعجب کہ آفتاب بیقرار اب بھی نہیں
تمہاری یادوں کا سلسلہ دعا تک جا پہنچا
اور اُسے ہمارا خیال آیا اب بھی نہیں
یہ کیسی کشمش میں ڈوبی جا رہی ہوں
جو ملتا ہیں خوابوں میں لیکن نظر آیا اب بھی نہیں
ُاس کے شہر میں ہم گئے تھے گلاب لے کر
اور ُانہیں ہم پے پیار آیا اب بھی نہیں