کتنے طوفان میں نے دل میں اٹھا رکھے ہیں
کتنے مہمان میں نے دل میں بٹھا رکھے ہیں
میری ہر بات پہ جو اعتبار کرتے ہیں
کتنے نادان میں نے دل میں چھپا رکھے ہیں
جو میرے دل پہ حکمرانی کیا کرتے ہیں
کتنے سلطان میں نے دل میں بٹھا رکھے ہیں
تم جو چاہو تو کبھی تم کو بھی دکھا دیں گے
کتنے ارمان میں نے دل میں دبا رکھے ہیں
تیری آمد کے لئے روز پھول چن چن کر
کتنے گلدان میں نے دل میں سجا رکھے ہیں
داغ جو بھی ملا وہ دل میں دفن کرتے گئے
کتنے شمشان میں نے دل مین بنا رکھے ہیں
دل کی ویرانیاں بھی بزم کا سامان ہوئیں
کتنے ویران میں نے دل میں بسا رکھے ہیں