اپنے دل کی بات میں اسے کہتا کہتا رہ گیا
وہ اپنی بات آنکھوں کی زبانی کہتا کہہ گیا
میں اس کے حسن میں کچھ ایسا کھو گیا
اس کے بعد کچھ کہنے سے شرماتا رہ گیا
میرے قریب سے گزرا کچھ اس انداز سے
اس کی خوشبو سے سانسوں کو مہکاتا رہ گیا
شاید میرے مقدر میں اس کا ساتھ نہ تھا
تصور ہی تصور میں اسے اپنا ہمسفر بناتا رہ گیا
وہ چل دیا اپنے پیارے دوست سے روٹھ کر
اور میں اس سے بچھڑ کر روتا رہ گیا
سبھی لوگ گھروں میں جا کے سو بھی گئے
میں اپنی محبت کی داستاں سناتا رہ گیا
میں اس کی جدائی کا غم سہہ نہ سکا
پھر تمام عمر دیواروں سے سر ٹکراتا رہ گیا