دل کی دنیا جو بڑی ہے کام کی
کب سے ہم نے وہ تمھارے نام کی
مبتلا تھے ہم تمھاری چاہ میں
راز تھی یہ بات کس نے عام کی
جانے جاناں خفتگی کا کیا جواز
رہ گی منزل فقط دو گام کی
موسم آہ و فغاں کے درمیاں
مسکرا کے ہم نے صبح شام کی
مرتضی کا سر یونہی تو خم نہیں
بات ہے کچھ اور تیرے بام کی